ہفتہ وار درس سے اقتباس
دوستو! ایک با ت ہمیشہ یا د رکھیں کیفیات اور ساعتیں، ان دو چیزو ں کی قدر کرنا ۔ بعض ساعتیں مستجاب ہوتی ہیں ، قبو لیت کی ہو تی ہیں ، گھڑیاں قبولیت کی ہو تی ہیں ۔ اِن ساعتوں، کیفیتوں کی قدر کریں اور ان لمحو ں کی قدر کریں ۔جن لمحوں میںہمارے اندر کوئی کیفیت پیدا ہو گئی ہے ۔ کوئی بھی شخص ایسا نہیں جس کو اللہ کا قُرب بغیر شبِ جمعہ کے ملا ہو ۔ یا درکھئے گا ۔ کوئی بھی شخص ایسا نہیں جس کوہم ولی کہتے ہیں، اُس کو مقام ولا یت ملا ہو اور بغیر شبِ جمعہ کے ملا ہو ۔ ےعنی جمعرات کی شام اور جمعہ کی رات۔وہ رات اللہ کے ہا ں مطلو ب اور محبوب ہے ۔ جمعہ سیّدالایا م ہے۔ جمعہ سارے دنو ں کا سردار ہے ۔ جمعہ کی رات ساری راتو ں کی سردار ہے ۔ جمعہ کے دن میں ایک ایسی گھڑی ہے جس میں اللہ جل شانہ‘ سے جومانگو، اللہ وہ عطا کر تا ہے ۔اپنی بات پھر دوہراتا ہو ں۔ دو چیزوں کی قدر دانی کریں ایک کیفیات کی اور دوسری ساعتوں کی ۔ وہ اوقات تلاش کریں جن اوقات میں اللہ جل شانہ ‘ کے وعدے ہیں ۔ اور پھر اللہ پاک سے عرض کریں الہٰی تیرے حبیب سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا ہے کہ ا ن لمحوں میں دعائیں قبو ل ہوتی ہیں۔ اللہ میں تو اس قابل نہیں ہو ں ،میرا عمل ا س قابل نہیں ہے، میرا جسم اس قابل نہیں۔ یا اللہ میرا سب کچھ اس قابل نہیں ۔ لیکن تو سچا، تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلمکا فرمان سچا۔یااللہ اپنے سچے ہونے کے واسطے، اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے ہونے کے واسطے ،تو اپنے وعدے کو میرے لیے پورا کر دے اور میری اس دعا کو قبول کر لے ۔
جب نماز کے لیے صفیں درست ہو رہی ہو ں اس وقت دعائیں قبول ہو تی ہیں ۔دعا کی قبولیت کا ایک واقعہ اور بھی سناتا جا ﺅ ں جب یہ حدیث سنی تو ایک بڑھیا کہنے لگی آج میں دیکھو ں تو سہی کہ حضرت بلا ل رضی اللہ عنہ اذان کے بعد کیا دعا مانگتے ہیں؟ تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان کے بعد سب سے پہلی جو دعا مانگی تھی وہ مشرکین کے لیے ہدایت کی دعا مانگی تھی ۔ یا اللہ ان سارے مشرکین کو ہدایت دے دے۔ میں تو اکثر کہا کرتا ہوں کہ پوری دنیا کے غیر مسلموں کے لیے ہمارے دل میں خیر خواہی کا جذبہ ہو ۔ بعض اوقات سوچتا ہو ںیہ غیر مسلم ہے ، مر گیا تو جہنم کی آگ میں کیسے جلے گا ؟ میرے آقا سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہے ۔ یہ ہندو ہے ، یہ عیسائی ہے، یہ یہودی ہے، یہ مشرک ہے ، یہ کوئی بھی ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے جو سب سے پہلے دعا مانگی تھی وہ دعایہی مانگی تھی کہ یا اللہ ان مشرکین مکہ کو ہدایت دے دے۔ اس بات کو سمجھیںکہ بعض اوقات کیفیا ت بنتی ہیں اور بعض اوقات کیفیات بنائی جاتی ہیں۔ بعض اوقات کیفیات اللہ کی طر ف سے خود بخود بن جا تی ہیں ۔ یہ چیزیں یکدم اللہ عطا کر دیتا ہے ۔ اس کی قدر دانی کریں اور پھر مانگنا شروع کردیں ۔ اللہ سو فی صدعطا فرماتے ہیں اور بعض اوقات کیفیات بنائی جاتی ہیں ۔ بڑی دیر تک دعامانگتے مانگتے، ایک لمحہ ایسا آتا ہے کہ جس میں دل کہتا ہے کہ اب میں اللہ سے باتیں کر رہا ہوں اور اللہ میری سُن رہا ہے اور اندر ایک جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ اندر ایک بے قراری ، بے چینی ، بے کلی اور اس کے ساتھ مزہ ، لذت ، سرور۔ بس سمجھ لے اللہ کے ساتھ اب تعلق بن گیا ہے ۔ پھر اللہ سے مانگیں اور دل کھول کر ما نگیں ۔ اس کی عظمت اور شان کو مدِنظر رکھتے ہوئے ما نگیں ۔ محنت کرنا پڑتی ہے۔ جس کو اللہ سے مانگنا آگیا اور جس کو اللہ سے منوانا آگیا اللہ کی قسم اسے دنیا کے کسی اسلحے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ سچی با ت ہے کہ دعا اللہ سے منوانے کا نام ہے ۔ ایران اُس دورکی سپر پاور تھی اور اس کی شکست کے لیے کو ئی سو چ بھی نہیں سکتا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ درخت کے نےچے سورہے تھے ۔ غالباً دوپہر کا قےلولہ تھا ۔ تو ایران کے شہزادے کو گرفتار کر کے لایا گیا ۔ شاید اس کا نام ہرمزان تھا اور اس کے شاہی لبا س پر جو تمغے لگے ہو ئے تھے ان کی جھنکا ر سے اور ان لوگو ں کی آہٹ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھ کھل گئی ۔اٹھ کر بیٹھے تو امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھ کر کہا ، کیا حال ہے؟ وقت وقت میں اندا ز بدل جا تے ہیں ۔ جب یہ پو چھا نا ں کہ کیا حال ہے ؟ سمجھ گیا ۔ کہنے لگا اب ہمار ا حال پوچھتے ہو جب اپنے اللہ کو مقابلے کے لیے لے آئے ہو۔ تمہارے رب سے مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ بتاﺅ تو سہی عمر رضی اللہ عنہ آج تک کونسی جنگ جیتی تھی تم نے ؟جب اللہ ساتھ آجاتا ہے ، تو دعا مانگ پھر تجھے ملے گا۔ اس پر محنت کرنی پڑے گی ۔ یہ چیز کر تے کر تے آتے آتی ہے ۔ فکر مندی سے آئے گی بے توجہی سے نہیں آئے گی ۔ ہمارے ہا ں ایک مستری تھا، وہ کہنے لگا کہ جی مجھے تو صرف قبروں کی لپائی آتی ہے اور کچھ نہیں کر سکتا ۔ ساری زندگی اس نے سیکھنے کی کو شش ہی نہیں کی اور واقعی جو دےواربنائے گا ٹےڑھی بنائے گا اور کچھ نہیں ۔ اس نے کوشش ہی نہیں کی ۔ اس نے محنت ہی نہیں کی۔ اس نے ساری زندگی ایسے ہی گزار دی ۔
مجھ سے ایک دفعہ کہنے لگے مجھے ایک چیز بنانی آتی ہے میں یہ بیکری والی بھٹی بنا لیتا ہو ں۔ مجھے دور دور سے لو گ لینے آتے ہیں اور ہا ں میں نے دیکھا ہے کہ جب عما ر ت کی بنیا دیں بھرواتے ہیں تو اس کو بلا تے ہیں۔ اس سے اوپر اس کو نہیں بلاتے ۔کیو نکہ اس سے زیا دہ ہو کام کر ہی نہیں سکتاتھا آپ سوچیںکیاساری زندگی ہمیں ایسے ہی رہنا ہے؟ پھسی پھسی سی د عا ئیں ، بے لذت مناجا ت ، بے کیف عبادات۔ دعا سے بھی کا م نہ بنا ، ذکر سے بھی نہ بنا اللہ کا تعلق نصیب نہ ہوا اور اسی حال میں کرتے کرا تے دنیا سے رخصتی ہو گئی تو کیا معاملہ ہوا ۔ کچھ بھی نہ ہوا ۔ اس کی روزی تو پھر بھی لگی ہوئی ہے ۔ قبروں کی لپا ئی یا بھٹی بنا کے ۔یا د رکھیں دنیا کا کام نہ سیکھا تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر اللہ کا نام نہ سیکھا ، اللہ کے نام کا سرور اور کیف نہ سیکھا ۔تو معاملہ بڑا خطر ناک ہوا۔ آپ ےقین جانئے ساری دنیا کے عہدے ،ساری دنیا کی دولتیں ،ساری دنیا کے کمالا ت مل جائیں ۔مگر اللہ کا تعلق نہ ملے تو کچھ نہ ملا ۔ حضرت ابراہےم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ جل شانہ‘ نے ہمیں جو اندرکا سکون اور اطمینان دیا ہے ۔ اگر با دشاہو ں کو پتہ چل جائے تو یہ تلواریں لیکر ہم پر ٹوٹ پڑیں ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں